کتنے بھولے ہوئے نغمات سنانے آئے
پھر ترے خواب مجھے مجھ سے چرانے آئے
پھر دھنک رنگ تمناؤں نے گھیرا مجھ کو
پھر ترے خط مجھے دیوانہ بنانے آئے
پھر تری یاد میں آنکھیں ہوئیں شبنم شبنم
پھر وہی نیند نہ آنے کے زمانے آئے
پھر ترا ذکر کیا باد صبا نے مجھ سے
پھر مرے دل کو دھڑکنے کے بہانے آئے
پھر مرے کاسۂ خالی کا مقدر جاگا
پھر مرے ہاتھ محبت کے خزانے آئے
شرط سیلاب سمونے کی لگا رکھی تھی
اور دو اشک بھی ہم سے نہ چھپانے آئے
غزل
کتنے بھولے ہوئے نغمات سنانے آئے
اقبال اشہر