بھیگی بھیگی پلکوں پر یہ جو اک ستارہ ہے
چاہتوں کے موسم کا آخری شمارہ ہے
امن کے پرندوں کی سرحدیں نہیں ہوتیں
ہم جہاں ٹھہر جائیں وہ وطن ہمارا ہے
شام دستکیں دے گی تب سمجھ میں آئے گا
زندگی تلاطم ہے موت اک سہارا ہے
کیا عجب پہیلی ہے زندگی کا میلہ بھی
پہلے خود کو ڈھونڈا ہے پھر تجھے پکارا ہے
آرزو ہے سورج کو آئنہ دکھانے کی
روشنی کی صحبت میں ایک دن گزارا ہے
غزل
بھیگی بھیگی پلکوں پر یہ جو اک ستارہ ہے
اقبال اشہر