لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے
ہم ہر برج میں گھٹتے گھٹتے صبح تلک گمنام ہوئے
ان لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خوش انجام ہوئے
نجد میں قیس یہاں پر انشاؔ خار ہوئے ناکام ہوئے
کس کا چمکتا چہرا لائیں کس سورج سے مانگیں دھوپ
گھور اندھیرا چھا جاتا ہے خلوت دل میں شام ہوئے
ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمیں ہشیار تھے یارو ایک ہمیں بد نام ہوئے
شوق کی آگ نفس کی گرمی گھٹتے گھٹتے سرد نہ ہو
چاہ کی راہ دکھا کر تم تو وقف دریچہ و بام ہوئے
ان سے بہار و باغ کی باتیں کر کے جی کو دکھانا کیا
جن کو ایک زمانہ گزرا کنج قفس میں رام ہوئے
انشاؔ صاحب پو پھٹتی ہے تارے ڈوبے صبح ہوئی
بات تمہاری مان کے ہم تو شب بھر بے آرام ہوئے
غزل
لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے
ابن انشا