کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
اے لوگو خاموش رہو ہاں اے لوگو خاموش رہو
سچ اچھا پر اس کے جلو میں زہر کا ہے اک پیالہ بھی
پاگل ہو کیوں ناحق کو سقراط بنو خاموش رہو
ان کا یہ کہنا سورج ہی دھرتی کے پھیرے کرتا ہے
سر آنکھوں پر سورج ہی کو گھومنے دو خاموش رہو
محبس میں کچھ حبس ہے اور زنجیر کا آہن چبھتا ہے
پھر سوچو ہاں پھر سوچو ہاں پھر سوچو خاموش رہو
گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بگیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو
آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ
انشاؔ جی لو دھاگا لو اور لب سی لو خاموش رہو
غزل
کچھ کہنے کا وقت نہیں یہ کچھ نہ کہو خاموش رہو
ابن انشا