سارے معمولات میں اک تازہ گردش چاہئے
نم زمیں پر خشک موسم کی نوازش چاہئے
شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی
زندہ رہنا ہو تو قاتل کی سفارش چاہئے
میری مشکل بھاگتے لمحوں کو پکڑوں کس طرح
ضد اسے ان دیکھے خوابوں کی نمائش چاہئے
بھیجتا میں کس کو صبحوں کی کنواری روشنی
اس کو بوڑھی رات کے رنگوں کی تابش چاہئے
سوکھتے الفاظ کے موسم میں حرف تر ہوں میں
پھر سزا پہلے سماعت کی نوازش چاہئے
جو ہمارا تھا وہ نکلا آفتابوں کا حلیف
کس خدا سے اب کہا جائے کہ بارش چاہئے
باریابی شرط خاموشی پہ ہے وہ اس طرح
پہلے ہی تفصیل احوال گزارش چاہئے
بزدلی میری تھی جو منظورؔ میں زخمی ہوا
وہ سپر بردار تھے ان کی ستائش چاہئے
غزل
سارے معمولات میں اک تازہ گردش چاہئے
حکیم منظور