EN हिंदी
منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے | شیح شیری
muntashir sayon ka hai ya aks-e-be-paikar ka hai

غزل

منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے

حکیم منظور

;

منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے
منتظر یہ آئینہ کیا جانے کس منظر کا ہے

ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا
دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے

وہ کسی فرہنگ کا قیدی نہ اب تک ہو سکا
وہ شکستہ لفظ میری روح کے اندر کا ہے

ہر کوئی ہونے لگا ہے دن کو خوابوں کا اسیر
خوف ہر اک آنکھ میں اک دور کے منظر کا ہے

دیکھ کر بھی کیا کرے منظورؔ اس کا کرب ہے
وہ تو جز آنکھوں کے سر سے پاؤں تک مرمر کا ہے