منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے
منتظر یہ آئینہ کیا جانے کس منظر کا ہے
ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا
دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے
وہ کسی فرہنگ کا قیدی نہ اب تک ہو سکا
وہ شکستہ لفظ میری روح کے اندر کا ہے
ہر کوئی ہونے لگا ہے دن کو خوابوں کا اسیر
خوف ہر اک آنکھ میں اک دور کے منظر کا ہے
دیکھ کر بھی کیا کرے منظورؔ اس کا کرب ہے
وہ تو جز آنکھوں کے سر سے پاؤں تک مرمر کا ہے
غزل
منتشر سایوں کا ہے یا عکس بے پیکر کا ہے
حکیم منظور