سفر ہی کوئی رہے گا نہ فاصلہ کوئی
یہ اک خیال ہے اس پر بھی تبصرہ کوئی
رقم ہوا ہوں یقین و قیاس دونوں میں
کرے تو کیسے کرے میرا تجزیہ کوئی
وہ دست سنگ ہے میں آئینہ گرفتہ ہوں
نہ ہو سکے گا کبھی ہم میں تصفیہ کوئی
زمیں پہ آئے نہ آئے یہ وہم ہے سب کو
خلا کی گود میں پلتا ہے حادثہ کوئی
میں اک لکیر کا قیدی ہوں باوجود اس کے
ہر اک لکیر سے ملتا ہے سلسلہ کوئی
نہ جانے کس لیے روتا ہوں ہنستے ہنستے میں
بسا ہوا ہے نگاہوں میں آئینہ کوئی
ہوا سلاتی ہے دامن میں زرد پتوں کو
اسے بھی چاہئے جینے کا مشغلہ کوئی
بھلا ہے دور رہے اک حریف کی مانند
ہے پھر بھی سائے کا مجھ سے معاملہ کوئی
لکھا گیا نہیں منظورؔ آج تک شاید
شفق کے باب میں صبحوں کا تذکرہ کوئی
غزل
سفر ہی کوئی رہے گا نہ فاصلہ کوئی
حکیم منظور