آگ جو باہر ہے پہنچے گی اندر بھی
سائے جل جائیں گے اور پھر پیکر بھی
تیری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں
تیرے ہاتھوں میں دیکھا ہے خنجر بھی
پارکھ ہے تو مجھ کو پرکھ ہشیاری سے
میں اک گوہر بھی ہوں میں اک پتھر بھی
خوابوں میں بھی رہتا ہوں بے چین بہت
چین نہیں ملتا ہے مجھ کو سو کر بھی
کب تک جنگ لڑے گا تیرے سورج سے
سوکھے گا اک دن آخر یہ ساگر بھی
شفق شام کا دن بھر تھا ارمان مجھے
خون آلودہ نکلا ہے یہ منظر بھی
پھول کی پتی بھی ہے بار مجھے منظورؔ
دیکھو گے تو لگتا ہوں اک پتھر بھی
غزل
آگ جو باہر ہے پہنچے گی اندر بھی
حکیم منظور