مرے وجود کی دنیا میں ہے اثر کس کا
میں جانتا ہی نہیں ہوں میں ہم سفر کس کا
نہ مجھ پہ طنز کرو دوستو کہ بے گھر ہوں
تمہیں کہو کہ ہے تم میں سے اپنا گھر کس کا
اس اک سوال کا سورج بھی دے سکا نہ جواب
میں صرف سایہ نہیں روپ ہوں مگر کس کا
جو میرے پاس تھا سب لوٹ لے گیا کوئی
کواڑ بند رکھوں اب مجھے ہے ڈر کس کا
ہر ایک شخص رہا محو شغل سنگ زنی
کسے پڑی تھی کہ دیکھے اڑا ہے سر کس کا
یہ اور بات سزا اس کو مل گئی ورنہ
چلا ہے زور دل ناصبور پر کس کا
تمہاری بات الگ ہے وگرنہ اے منظورؔ
بچا ہے اب بھی سواد دل و نظر کس کا
غزل
مرے وجود کی دنیا میں ہے اثر کس کا
حکیم منظور