یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
غلام محمد قاصر
زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا
غلام محمد قاصر
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو
غلام محمد قاصر
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے
غلام محمد قاصر
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
غلام محمد قاصر
بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا
وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا
غلام محمد قاصر
بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا
مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا
غلام محمد قاصر
دن اندھیروں کی طلب میں گزرا
رات کو شمع جلا دی ہم نے
غلام محمد قاصر
گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے
اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے
غلام محمد قاصر