محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا
سجی ہے بزم شبنم تو تبسم کام آئے گا
تعارف پھول کا درپیش ہے تو چشم تر لے جا
اندھیرے میں گیا وہ روشنی میں لوٹ آئے گا
دیا جو دل میں جلتا ہے اسی کو بام پر لے جا
اڑانوں آسمانوں آشیانوں کے لیے طائر!
یہ پر ٹوٹے ہوئے میرے یہ معیار نظر لے جا
زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا
مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا
کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا
تجھے کس نے کہا تھا آئنے کو توڑ کر لے جا
غزل
محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا
غلام محمد قاصر