گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک
سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک
غلام محمد قاصر
ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا
تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں
غلام محمد قاصر
ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر
آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں
غلام محمد قاصر
آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ
پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے
غلام محمد قاصر
ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں
پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں
غلام محمد قاصر
ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو
غلام محمد قاصر
ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے
مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا
غلام محمد قاصر
ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے
اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے
غلام محمد قاصر
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے
غلام محمد قاصر