EN हिंदी
غلام حسین ساجد شیاری | شیح شیری

غلام حسین ساجد شیر

34 شیر

جی میں آتا ہے کہ دنیا کو بدلنا چاہئے
اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہوں میں

غلام حسین ساجد




جس قدر مہمیز کرتا ہوں میں ساجدؔ وقت کو
اس قدر بے صبر رہنے کی اسے عادت نہیں

غلام حسین ساجد




کبھی محبت سے باز رہنے کا دھیان آئے تو سوچتا ہوں
یہ زہر اتنے دنوں سے میرے وجود میں کیسے پل رہا ہے

غلام حسین ساجد




کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے
یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

غلام حسین ساجد




کسی نے فقر سے اپنے خزانے بھر لیے لیکن
کسی نے شہریاروں سے بھی سیم و زر نہیں پائے

غلام حسین ساجد




لوٹ جانے کی اجازت نہیں دوں گا اس کو
کوئی اب میرے تعاقب میں اگر آتا ہے

غلام حسین ساجد




میں ایک مدت سے اس جہاں کا اسیر ہوں اور سوچتا ہوں
یہ خواب ٹوٹے گا کس قدم پر یہ رنگ چھوٹے گا کب لہو سے

غلام حسین ساجد