نشاط فتح سے تو دامن دل بھر نہیں پائے
مگر کیوں ہارنے والے محبت کر نہیں پائے
مداوا کس طرح ہوگا وہاں زنگار وحشت کا
اگر کچھ آئنے ہم نے ستاروں پر نہیں پائے
فصیل شہر سے آگے ذرا سا دشت کھسکا تھا
اور اس کے بعد لوگوں نے بہت سے گھر نہیں پائے
سکوت مرگ کیا ٹوٹے کہ ہم نے شہر سے باہر
درختوں میں پرندے بھی زیادہ تر نہیں پائے
کسی نے فقر سے اپنے خزانے بھر لیے لیکن
کسی نے شہریاروں سے بھی سیم و زر نہیں پائے
دیار عشق کے پودوں میں اب بھی پھول آتے ہیں
کہ ہم نے بھیک میں ساجدؔ کبھی اخگر نہیں پائے
غزل
نشاط فتح سے تو دامن دل بھر نہیں پائے
غلام حسین ساجد