صبح تک جن سے بہت بیزار ہو جاتا ہوں میں
رات ہوتے ہی انہی گلیوں میں کھو جاتا ہوں میں
خواب میں گم ہوں کہ باہر کی فضا اچھی نہیں
آنکھ کھلتے ہی کہیں زنجیر ہو جاتا ہوں میں
کھینچ لاتی ہے اسی کوچے میں پھر آوارگی
روز جس کوچے سے اپنے شہر کو جاتا ہوں میں
اس اندھیرے میں چراغ خواب کی خواہش نہیں
یہ بھی کیا کم ہے کہ تھوڑی دیر سو جاتا ہوں میں
رات لاتی ہے کسی کے قرب کی خواہش مگر
صبح ہوتے ہی کسی سے دور ہو جاتا ہوں میں
جی میں آتا ہے کہ دنیا کو بدلنا چاہئے
اور اپنے آپ سے مایوس ہو جاتا ہوں میں
بارے باغ صحن دنیا میں بہت دن رہ لیا
خوش رہو اب اس گلی سے دوستو جاتا ہوں میں
غزل
صبح تک جن سے بہت بیزار ہو جاتا ہوں میں
غلام حسین ساجد