کہیں محبت کے آسماں پر وصال کا چاند ڈھل رہا ہے
چراغ کے ساتھ طاقچے میں گلاب کا پھول جل رہا ہے
بہت دنوں سے زمین اپنے مدار پر بھی نہیں ہے لیکن
ابھی وہی شام چھا رہی ہے ابھی وہی دن نکل رہا ہے
مجھے یقیں تھا میں ان ستاروں کے سایے میں عمر بھر چلوں گا
بہت ہی آہستگی سے لیکن یہ سارا منظر بدل رہا ہے
کبھی محبت سے باز رہنے کا دھیان آئے تو سوچتا ہوں
یہ زہر اتنے دنوں سے میرے وجود میں کیسے پل رہا ہے
کہیں روانی میں بڑھ رہے ہیں کہیں ستارے رکے ہوئے ہیں
خبر نہیں کائنات کا یہ نظام کس طرح چل رہا ہے
ابھی گماں تک نہیں ہے ساجدؔ اسے میں پھر یاد بھی کروں گا
مگر یہ کیوں آئنے سے ہٹ کر وہ عکس بھی ہاتھ مل رہا ہے
غزل
کہیں محبت کے آسماں پر وصال کا چاند ڈھل رہا ہے
غلام حسین ساجد