کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ
جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا
فاطمہ حسن
آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں
مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں
فاطمہ حسن
کب اس کی فتح کی خواہش کو جیت سکتی تھی
میں وہ فریق ہوں جس کو کہ ہار جانا تھا
فاطمہ حسن
ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو
سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے
فاطمہ حسن
دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو
جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا
فاطمہ حسن
بچھڑ رہا تھا مگر مڑ کے دیکھتا بھی رہا
میں مسکراتی رہی میں نے بھی کمال کیا
فاطمہ حسن
بھول گئی ہوں کس سے میرا ناطہ تھا
اور یہ ناطہ کیسے ٹوٹا بھول گئی
فاطمہ حسن
بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی
میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں
فاطمہ حسن
اور کوئی نہیں ہے اس کے سوا
سکھ دیے دکھ دیے اسی نے دیے
فاطمہ حسن