کون خواہش کرے کہ اور جیے
ایک بیزار زندگی کے لیے
اور کوئی نہیں ہے اس کے سوا
سکھ دیے دکھ دیے اسی نے دیے
آؤ ہونٹوں پہ لفظ رکھ لیں ہم
ایک مدت ہوئی ہے بات کیے
زخم کو راس آ گئی ہے ہوا
اب مسیحا اسے سیے نہ سیے
اس کے پیالے میں زہر ہے کہ شراب
کیسے معلوم ہو بغیر پیے
اب تھکن درد بنتی جاتی ہے
دل سے کچھ کام بھی تو ایسے لیے
میں نے ماں کا لباس جب پہنا
مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیے
غزل
کون خواہش کرے کہ اور جیے
فاطمہ حسن