نہیں سمجھی تھی جو سمجھا رہی ہوں
اب الجھی ہوں تو کھلتی جا رہی ہوں
بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی
میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں
امنڈ آیا ہے شور اوروں کے گھر سے
دریچے کھول کے پچھتا رہی ہوں
ہجوم اتنا کہ چہرے بھول جاؤں
بساط ذات کو پھیلا رہی ہوں
یہ منظر پوچھتے ہیں مجھ سے اکثر
کہاں سے آئی ہوں کیوں جا رہی ہوں
اگر سچ ہے تو پھر ثابت کرو تم
میں اپنے آپ کو جھٹلا رہی ہوں
غزل
نہیں سمجھی تھی جو سمجھا رہی ہوں
فاطمہ حسن