رکا جواب کی خاطر نہ کچھ سوال کیا
مگر یہ زعم کہ ہر رابطہ بحال کیا
تھکن نہیں ہے کٹھن راستوں پہ چلنے کی
بچھڑنے والوں کے دکھ نے بہت نڈھال کیا
جو ٹوٹنا تھا فقط درد ہی کا رشتہ تھا
تو دل نے کیوں بھلا اس بات پر ملال کیا
بچا کے رکھنا تھا اک عکس اپنی آنکھوں میں
بڑے جتن سے انہیں آئینہ مثال کیا
لہو میں تیر گئی وہ گھڑی جدائی کی
کہ جس کے زہر نے جینا مرا محال کیا
بچھڑ رہا تھا مگر مڑ کے دیکھتا بھی رہا
میں مسکراتی رہی میں نے بھی کمال کیا
خبر تھی اس کو کہ دشت ہنر سے آئی ہوں
سو اس کے لفظوں نے زخموں کا اندمال کیا
غزل
رکا جواب کی خاطر نہ کچھ سوال کیا
فاطمہ حسن