اب کسی اور کا تم ذکر نہ کرنا مجھ سے
ورنہ اک خواب جو آنکھوں میں ہے مر جائے گا
فصیح اکمل
بہت سی باتیں زباں سے کہی نہیں جاتیں
سوال کر کے اسے دیکھنا ضروری ہے
فصیح اکمل
ہماری فتح کے انداز دنیا سے نرالے ہیں
کہ پرچم کی جگہ نیزے پہ اپنا سر نکلتا ہے
فصیح اکمل
ہمیں پہ ختم ہیں جور و ستم زمانے کے
ہمارے بعد اسے کس کی آرزو ہوگی
فصیح اکمل
ہر ایک آنکھ میں آنسو ہر ایک لب پہ فغاں
یہ ایک شور قیامت سا کوبکو کیا ہے
فصیح اکمل
جنہیں تاریخ بھی لکھتے ڈرے گی
وہ ہنگامے یہاں ہونے لگے ہیں
فصیح اکمل
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
سلیقہ زندگی کا دل کی نادانی سے آیا ہے
فصیح اکمل
مدعا اظہار سے کھلتا نہیں ہے
یہ زبان بے زبانی اور ہے
فصیح اکمل
ستاروں کی طرح الفاظ کی ضو بڑھتی جاتی ہے
غزل میں حسن اس چہرے کی تابانی سے آیا ہے
فصیح اکمل