غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
ہماری بستیوں سے روز اک لشکر نکلتا ہے
خدا جانے کہاں اس کی رفاقت ہو گئی زخمی
کہ شب میں اک پرندہ چیختا اکثر نکلتا ہے
متاع چشم حیراں کے سوا اب کچھ نہیں باقی
دل آتش گرفتہ کا یہی جوہر نکلتا ہے
لہو پی کر زمیں جب بھی نئی کروٹ بدلتی ہے
کسی کا سر نکلتا ہے کسی کا گھر نکلتا ہے
ہماری فتح کے انداز دنیا سے نرالے ہیں
کہ پرچم کی جگہ نیزے پہ اپنا سر نکلتا ہے
ہمارے شہر میں کم قامتوں کی بھیڑ ایسی ہے
اسی کا قتل ہو جاتا ہے جس کا سر نکلتا ہے
نظر والوں سے مت پوچھو حد امکاں کہاں تک ہے
کہیں سورج نکلتا ہے کہیں منظر نکلتا ہے
اگر جینے کی خواہش ہے جبیں سنگ آشنا رکھنا
کہ ہر مخلص کی مٹھی میں یہاں خنجر نکلتا ہے
غزل
غبار تنگ ذہنی صورت خنجر نکلتا ہے
فصیح اکمل