یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے
وہی نہ دیکھنا جو دیکھنا ضروری ہے
بدلتی سمتوں کی تاریخ لکھ رہا ہوں میں
ہر ایک موڑ پہ اب حادثہ ضروری ہے
نقوش چہروں کے الفاظ بنتے جاتے ہیں
کچھ اور اس سے زیادہ بھی کیا ضروری ہے
یہ سونے والے تجھے سنگسار کر دیں گے
یہ کہہ کے دیکھ کبھی جاگنا ضروری ہے
اندھیری رات میں اس رہ گزار پر یارو
مری طرح سے یہ جلتا دیا ضروری ہے
جہاں جہاں سے میں گزروں اداس راتوں میں
وہاں وہاں تری آواز پا ضروری ہے
بہت سی باتیں زباں سے کہی نہیں جاتیں
سوال کر کے اسے دیکھنا ضروری ہے
غزل
یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے
فصیح اکمل