منور جسم و جاں ہونے لگے ہیں
کہ ہم خود پر عیاں ہونے لگے ہیں
بظاہر تو دکھائی دے رہے ہیں
بباطن ہم دھواں ہونے لگے ہیں
جنہیں تاریخ بھی لکھتے ڈرے گی
وہ ہنگامے یہاں ہونے لگے ہیں
بہت سے لوگ کیوں جانے اچانک
طبیعت پر گراں ہونے لگے ہیں
فضا میں مرتعش بھی بے اثر بھی
ہم آواز اذاں ہونے لگے ہیں
سیاسی لوگ اب چولے بدل کر
خدا کے ترجماں ہونے لگے ہیں
جو ہم کو جاں سے بڑھ کر چاہتے تھے
نصیب دشمناں ہونے لگے ہیں
وہ چنگاری جو عین مدعا ہے
تو ہم شعلہ بجاں ہونے لگے ہیں
کبھی تھے نفع اپنا آپ ہم بھی
مگر اب تو زیاں ہونے لگے ہیں
اذیت کوشیوں کا فیض دیکھو
مسائل داستاں ہونے لگے ہیں
بیاں ہم کو کرے گا وہ کہاں سے
کہ ہم تو خود بیاں ہونے لگے ہیں
ذرا آپے میں رکھو خود کو اکملؔ
کہ بچے اب جواں ہونے لگے ہیں
غزل
منور جسم و جاں ہونے لگے ہیں
فصیح اکمل