مضطرب دل کی کہانی اور ہے
کوئی لیکن اس کا ثانی اور ہے
اس کی آنکھیں دیکھ کر ہم پر کھلا
یہ شعور حکمرانی اور ہے
یہ جو قاتل ہیں انہیں کچھ مت کہو
اس ستم کا کوئی بانی اور ہے
عمر بھر تم شاعری کرتے رہو
زخم دل کی ترجمانی اور ہے
حوصلہ ٹوٹے نہ راہ شوق میں
غم کی ایسی میزبانی اور ہے
مدعا اظہار سے کھلتا نہیں ہے
یہ زبان بے زبانی اور ہے
آئینے کے سامنے بیٹھا ہے کون
آج منظر پر جوانی اور ہے
غزل
مضطرب دل کی کہانی اور ہے
فصیح اکمل