کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
سلیقہ زندگی کا دل کی نادانی سے آیا ہے
تم اپنے حسن کے جلووں سے کیوں شرمائے جاتے ہو
یہ آئینہ مری آنکھوں کی حیرانی سے آیا ہے
الجھنا خود سے رہ رہ کر نظر سے گفتگو کرنا
یہ انداز سخن اس کو نگہبانی سے آیا ہے
ندی ہے موج میں اپنی اسے اس کی خبر کیا ہے
کہ تشنہ لب مسافر کس پریشانی سے آیا ہے
ستاروں کی طرح الفاظ کی ضو بڑھتی جاتی ہے
غزل میں حسن اس چہرے کی تابانی سے آیا ہے
غزل
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
فصیح اکمل