EN हिंदी
کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے | شیح شیری
kitabon se na danish ki farawani se aaya hai

غزل

کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے

فصیح اکمل

;

کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے
سلیقہ زندگی کا دل کی نادانی سے آیا ہے

تم اپنے حسن کے جلووں سے کیوں شرمائے جاتے ہو
یہ آئینہ مری آنکھوں کی حیرانی سے آیا ہے

الجھنا خود سے رہ رہ کر نظر سے گفتگو کرنا
یہ انداز سخن اس کو نگہبانی سے آیا ہے

ندی ہے موج میں اپنی اسے اس کی خبر کیا ہے
کہ تشنہ لب مسافر کس پریشانی سے آیا ہے

ستاروں کی طرح الفاظ کی ضو بڑھتی جاتی ہے
غزل میں حسن اس چہرے کی تابانی سے آیا ہے