کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی
نگاہ خون تمنا سے با وضو ہوگی
بروز حشر کھڑے ہونگے منصفی کے لیے
خدا ملا تو مقابل سے گفتگو ہوگی
تمام عمر کے زخموں کا ہے حساب کتاب
ہماری فرد عمل بھی لہو لہو ہوگی
قبائے زیست جو ہے خارزار ہستی میں
وہ کس کے سوزن تدبیر سے رفو ہوگی
ہمیں پہ ختم ہیں جور و ستم زمانے کے
ہمارے بعد اسے کس کی آرزو ہوگی
غزل
کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی
فصیح اکمل