جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے
تمام عالم وحشت یہ چار سو کیا ہے
کسی کی یاد میں آنکھیں چھلکتی رہتی ہیں
تو اور مسلک عشاق میں وضو کیا ہے
اداس کر گیا یہ کون مسند گل کو
یہ شور و شین ہے کیسا یہ ہا و ہو کیا ہے
ترے حضور بھی اپنے ہی مسئلوں میں رہے
سمجھ نہ پائے کہ آنکھوں کے روبرو کیا ہے
سخن طراز ہو جب وہ تو ایسا لگتا ہے
دلوں پہ نور کی بارش ہے گفتگو کیا ہے
ہر ایک آنکھ میں آنسو ہر ایک لب پہ فغاں
یہ ایک شور قیامت سا کو بہ کو کیا ہے
غزل
جو تو نہیں ہے تو لگتا ہے اب کہ تو کیا ہے
فصیح اکمل