عزیز مجھ کو ہیں طوفان ساحلوں سے سوا
اسی لیے ہے خفا میرا ناخدا مجھ سے
فرحت شہزاد
بات اپنی انا کی ہے ورنہ
یوں تو دو ہاتھ پر کنارا ہے
فرحت شہزاد
دیکھ کے جس کو دل دکھتا تھا
وہ تصویر جلا دی ہم نے
فرحت شہزاد
ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے
بن ترے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے
فرحت شہزاد
حرف جیسے ہو گئے سارے منافق ایک دم
کون سے لفظوں میں سمجھاؤں تمہیں دل کا پیام
فرحت شہزاد
اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
the formality of you and I should in wine be drowned
meaning that these barriers of sobriety be downed
فرحت شہزاد
میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں
کہ اب سینے میں کچھ دکھتا نہیں ہے
فرحت شہزاد
مجھ پہ ہو جائے تری چشم کرم گر پل بھر
پھر میں یہ دونوں جہاں ''بات ذرا سی'' لکھوں
فرحت شہزاد
پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے
تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے
فرحت شہزاد