ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے
بن ترے چاند ستارے نہیں دیکھے جاتے
ہارنا دن کا ہے منظور مگر جان عزیز
ہم سے گیسو ترے ہارے نہیں دیکھے جاتے
دل پھنسا بھی ہو بھنور میں تو کوئی بات نہیں
رنج میں ڈوبتے پیارے نہیں دیکھے جاتے
جن کے پیروں میں سمندر تھے جھکائے نظریں
ان کی آنکھوں میں کنارے نہیں دیکھے جاتے
چھین لے میری سماعت کی بصارت یارب
ان لبوں پر مرے نعرے نہیں دیکھے جاتے
جن کی آہٹ سے بندھی تھی مرے دل کی دھڑکن
ان نگاہوں کے اشارے نہیں دیکھے جاتے
طور پتھر تھا مرے دل کو دکھا اپنی جھلک
پھر یہ کہنا کہ نظارے نہیں دیکھے جاتے
ماہ کامل بھی جسے دیکھ کے سجدے میں گرے
آنکھ میں اس کی ستارے نہیں دیکھے جاتے
غزل
ہم سے تنہائی کے مارے نہیں دیکھے جاتے
فرحت شہزاد