دو جھکی آنکھوں کا پہنچا جب مرے دل کو سلام
یوں لگا ہے دوپہر میں جیسے در آئی ہو شام
اس کے ہونٹوں کا کیا جب ذکر میرے شعر نے
ہر سماعت کے لبوں سے جا لگا لبریز جام
جیسے سجدے میں کوئی گر کر نہ اٹھے دیر تک
یوں گری آنکھوں پہ پلکیں سن کے اک کافر کا نام
دکھ کسی کا ہو اسے دھڑکن میں اپنی سینچ لے
کس نے سونپا ہے مرے دل کو یہ پاگل پن کا کام
اب تو جی میں ہے کہ ہر دکھ پر لگاؤں قہقہہ
ہو گئی ہیں شہر میں آنسو بھری آنکھیں تو عام
حرف جیسے ہو گئے سارے منافق ایک دم
کون سے لفظوں میں سمجھاؤں تمہیں دل کا پیام
اس قدر جلدی بھی کیا شہزادؔ تھی آخر بتا
کیا بگڑتا ساتھ گر تو اور چلتا چند گام
غزل
دو جھکی آنکھوں کا پہنچا جب مرے دل کو سلام
فرحت شہزاد