شام کہتی ہے کوئی بات جدا سی لکھوں
دل کا اصرار ہے پھر اس کی اداسی لکھوں
آج زخموں کو محبت کی عطا کے بدلے
تحفہ و تمغۂ احباب شناسی لکھوں
ساتھ ہو تم بھی مرے ساتھ ہے تنہائی بھی
کون سے دل سے کسے وجہ اداسی لکھوں
جس نے دل مانگا نہیں چھین لیا ہے مجھ سے
آپ میں آؤں تو وہ آنکھ حیا سی لکھوں
مجھ پہ ہو جائے تری چشم کرم گر پل بھر
پھر میں یہ دونوں جہاں ''بات ذرا سی'' لکھوں
دوڑتی ہے جو مرے خون میں تیری حسرت
دیکھ آئینہ اسے خون کی پیاسی لکھوں
تجھ سے کیوں دور ہے مجبور ہے شہزادؔ ترا
پڑھ سکے تو تو میں سچائی ذرا سی لکھوں
غزل
شام کہتی ہے کوئی بات جدا سی لکھوں
فرحت شہزاد