میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے
سکوں سے کیسے گزرتا یہ راستہ مجھ سے
غزل سنا کے کبھی نظم گنگنا کے مری
وہ کہہ رہا تھا مرے دل کا ماجرا مجھ سے
گزر کے وقت نے گونگا بنا دیا تھا جنہیں
وہ لفظ مانگ رہے ہیں نئی صدا مجھ سے
نہ گل کی کوئی خبر ہے نہ بات گلشن کی
خفا سی لگتی ہے کچھ روز سے صبا مجھ سے
وہ جس نے خواب مرے پل میں قتل کر ڈالے
خراج مانگنے آیا ہے خون کا مجھ سے
نیاز مند رہا میں بھی اس کا سب کی طرح
کہ کوئی بھانپ نہ لے اس کا سلسلہ مجھ سے
عزیز مجھ کو ہیں طوفان ساحلوں سے سوا
اسی لیے ہے خفا میرا ناخدا مجھ سے
نہ جانے کون سی محفل میں کس کے ساتھ ہوں میں
ہے منقطع مرا اپنا بھی رابطہ مجھ سے
بس ایک بار نظر بھر کے میں نے دیکھا تھا
نظر ملا نہ سکا پھر وہ بے وفا مجھ سے
غزل
میں اپنے آپ سے برہم تھا وہ خفا مجھ سے
فرحت شہزاد