EN हिंदी
دشت وحشت نے پھر پکارا ہے | شیح شیری
dasht-e-wahshat ne phir pukara hai

غزل

دشت وحشت نے پھر پکارا ہے

فرحت شہزاد

;

دشت وحشت نے پھر پکارا ہے
زندگی آج تو گوارا ہے

ڈوبنے سے بچا کے مانجھی نے
درد کے گھاٹ لا اتارا ہے

لاکھ تو مجھ سے ہے مگر مجھ میں
کب تری ہم سری کا یارا ہے

بات اپنی انا کی ہے ورنہ
یوں تو دو ہاتھ پر کنارا ہے

دل کی گنجان رہ گزاروں میں
کرب تنہائی کا سہارا ہے

لوگ مرتے ہیں بند آنکھوں سے
ہم کو اس آگہی نے مارا ہے

جان شہزادؔ زندگی کا سفر
ہم نے بے کارواں گزارا ہے