دشت وحشت نے پھر پکارا ہے
زندگی آج تو گوارا ہے
ڈوبنے سے بچا کے مانجھی نے
درد کے گھاٹ لا اتارا ہے
لاکھ تو مجھ سے ہے مگر مجھ میں
کب تری ہم سری کا یارا ہے
بات اپنی انا کی ہے ورنہ
یوں تو دو ہاتھ پر کنارا ہے
دل کی گنجان رہ گزاروں میں
کرب تنہائی کا سہارا ہے
لوگ مرتے ہیں بند آنکھوں سے
ہم کو اس آگہی نے مارا ہے
جان شہزادؔ زندگی کا سفر
ہم نے بے کارواں گزارا ہے
غزل
دشت وحشت نے پھر پکارا ہے
فرحت شہزاد