ادھر وہ دشت مسلسل ادھر مسلسل میں
وہی ازل کا وہ سایہ وہی یہ پاگل میں
ہر ایک گھر میں کسی اجنبی سا رہتا ہوں
کسی کی عقل میں آتا نہیں یہ مہمل میں
تمام شہر کی آنکھوں میں ریزہ ریزہ ہوں
کسی بھی آنکھ سے اٹھتا نہیں مکمل میں
رکاب خاک میں الجھے ہیں آسماں کے پاؤں
مرا خیال ہوا پر ہے اور پیدل میں
کچھ اس قدر ہے پس خاک آنسوؤں کا ہجوم
بس ایک بوند ابھر آئی اور جل تھل میں
غزل
ادھر وہ دشت مسلسل ادھر مسلسل میں
فرحت احساس