EN हिंदी
فرحان سالم شیاری | شیح شیری

فرحان سالم شیر

13 شیر

عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو
عشق زندہ ہے ذرا دست صبا پر لکھ دو

فرحان سالم




اب مجھ سے سنبھلتی نہیں یہ درد کی سوغات
لے تجھ کو مبارک ہو سنبھال اپنی یہ دنیا

فرحان سالم




اب اس مقام پہ ہے موسموں کا سرد مزاج
کہ دل سلگنے لگے اور دماغ جلنے لگے

فرحان سالم




عکس کچھ نہ بدلے گا آئنوں کو دھونے سے
آذری نہیں آتی پتھروں پہ رونے سے

فرحان سالم




ہے میری آنکھوں میں عکس نوشتہ دیوار
سمجھ سکو تو مرا نطق بے زباں لے لو

فرحان سالم




ہیں ان میں بند کسی عہد رستخیز کے عکس
یہ میری آنکھیں عجائب گھروں میں رکھ آنا

فرحان سالم




حوصلہ سب نے بڑھایا ہے مرے منصف کا
تم بھی انعام کوئی میری سزا پر لکھ دو

فرحان سالم




ہوں واردات کا عینی گواہ میں مجھ سے
یہ میری موت سے پہلے مرا بیاں لے لو

فرحان سالم




متاع درد مآل حیات ہے شاید
دل شکستہ مری کائنات ہے شاید

فرحان سالم