شہود دل زدگاں منظروں میں رکھ آنا
لہو کے داغ گلوں کے پروں میں رکھ آنا
یہ خانوادۂ منصور مٹ نہ جائے کہیں
مری متاع جنوں کچھ سروں میں رکھ آنا
ہیں ان میں بند کسی عہد رستخیز کے عکس
یہ میری آنکھیں عجائب گھروں میں رکھ آنا
یہ رات پچھلے پہر آفتاب ڈھونڈے گی
چراغ شام جلا کر دروں میں رکھ آنا
تمام عمر اک آندھی میں پر رکھے سالمؔ
وداع ہو تو اک آندھی پروں میں رکھ آنا
غزل
شہود دل زدگاں منظروں میں رکھ آنا
فرحان سالم