EN हिंदी
عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو | شیح شیری
aam hai izn ki jo chaho hawa par likh do

غزل

عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو

فرحان سالم

;

عام ہے اذن کہ جو چاہو ہوا پر لکھ دو
عشق زندہ ہے ذرا دست صبا پر لکھ دو

آ رہے ہیں سبھی اپنوں سبھی غیروں کے سلام
تم بھی دشنام کوئی میری قبا پر لکھ دو

پھر جلا ہے کسی آنگن میں کوئی تازہ چراغ
پھر کوئی قتل کسی دست جفا پر لکھ دو

حوصلہ سب نے بڑھایا ہے مرے منصف کا
تم بھی انعام کوئی میری سزا پر لکھ دو

روز لکھ لکھ کے جو دستار پہ لاتے ہیں سپاس
خلد ان کو بھی کوئی نام خدا پر لکھ دو

آندھیاں تیز ہیں میں آبلہ پا تم تنہا
اب بھی چاہو تو مرا نام ردا پر لکھ دو