کھو بیٹھی ہے سارے خد و خال اپنی یہ دنیا
اب تو ہے فقط ایک دھمال اپنی یہ دنیا
صدیوں کی ستم دیدہ غم و رنج سے معمور
کس درجہ ہے زخموں سے نڈھال اپنی یہ دنیا
زور آوریٔ ظلم ہے اس درجہ کہ قاتل
کہتے ہیں کہ ہے ان کا منال اپنی یہ دنیا
کب تک یہ ترا حسن تغافل ہے خدا یا
اک لعب ہے بردست مجال اپنی یہ دنیا
خوں ریزئ آدم کا یہ عالم ہے کہ اب تو
لگتی ہے بس اک گاہ قتال اپنی یہ دنیا
کیوں خون بشر خون تمنا ہے ہر اک سمت
کیوں خوں سے ہوئی جاتی ہے لال اپنی یہ دنیا
ہے خار کی مانند مری روح میں پیوست
یہ نیش غم و درد خیال اپنی یہ دنیا
مانند صلیب اس کو لیے پھرتا ہوں دن رات
کاندھوں پہ اٹھائے یہ وبال اپنی یہ دنیا
اب مجھ سے سنبھلتی نہیں یہ درد کی سوغات
لے تجھ کو مبارک ہو سنبھال اپنی یہ دنیا

غزل
کھو بیٹھی ہے سارے خد و خال اپنی یہ دنیا
فرحان سالم