عکس کچھ نہ بدلے گا آئنوں کو دھونے سے
آذری نہیں آتی پتھروں پہ رونے سے
مسئلہ نہ سلجھے گا پیاس بجھ نہ پائے گی
بے حسی کے ساغر میں آپ کو ڈبونے سے
توڑ دو حدیں ساری یہ بھی تجربہ کر لو
ذات اور سمٹے گی بے حجاب ہونے سے
لب پہ زعم مے خواری اور قدم بہکتے ہیں
صرف کاسۂ مے میں انگلیاں ڈبونے سے
ہر صدف کے سینے میں گر رہا ہے اک موتی
درد و غم کے ماروں کی کشتیاں ڈبونے سے
زخم روز اک تازہ دے دیا کرو ورنہ
بے دلی سی رہتی ہے درد کے نہ ہونے سے
ہر لہو فغاں دے گا ہر دیا دھواں دے گا
داغ مٹ نہیں سکتے دامنوں کو دھونے سے
کون سی وہ آتش تھی میرے خون میں سالمؔ
ہاتھ جل گئے اس کے انگلیاں ڈبونے سے
غزل
عکس کچھ نہ بدلے گا آئنوں کو دھونے سے
فرحان سالم