EN हिंदी
متاع درد مآل حیات ہے شاید | شیح شیری
mata-e-dard maal-e-hayat hai shayad

غزل

متاع درد مآل حیات ہے شاید

فرحان سالم

;

متاع درد مآل حیات ہے شاید
دل شکستہ مری کائنات ہے شاید

بس اک نقاب تھی وہ صبح نو کے چہرہ پر
ہم اس فریب میں الجھے کہ رات ہے شاید

خرد کی حد بھی ملی ہے جنون پر آ کر
جنون قہر خرد سے نجات ہے شاید

یہ اک خلش کہ مسلسل ستا رہی ہے مجھے
کہ لب وہ کانپے ہیں کیوں کوئی بات ہے شاید

انہیں گماں کہ مجھے ان سے ربط ہے سالمؔ
مجھے یہ وہم انہیں التفات ہے شاید