یہ کیا ہوا کہ سبھی اب تو داغ جلنے لگے
ہوا چلی تو لہو میں چراغ جلنے لگے
مٹا گیا تھا لہو کے سبھی نشاں قاتل
مگر جو شام ڈھلی سب چراغ جلنے لگے
اک ایسی فصل اترنے کو ہے گلستاں میں
زمانہ دیکھے کہ پھولوں سے باغ جلنے لگے
نگاہ طائر زنداں اٹھی تھی گھر کی طرف
کہ سوز آتش گریاں سے داغ جلنے لگے
اب اس مقام پہ ہے موسموں کا سرد مزاج
کہ دل سلگنے لگے اور دماغ جلنے لگے
اب آ بھی جا کہ یوں ہی دور دور رہنے سے
یہ میرے ہونٹ وہ تیرے ایاغ جلنے لگے
نہا کے نہر سے سالمؔ پری وہ کیا نکلی
کہ تاب حسن سے خود اصطباغ جلنے لگے

غزل
یہ کیا ہوا کہ سبھی اب تو داغ جلنے لگے
فرحان سالم