ٹٹولتا ہوا کچھ جسم و جان تک پہنچا
وہ آدمی جو مری داستان تک پہنچا
کسی جنم میں جو میرا نشاں ملا تھا اسے
پتا نہیں کہ وہ کب اس نشان تک پہنچا
میں صرف ایک خلا تھی، جہاں فضا نہ ہوا
جب آرزو کا پرندہ اڑان تک پہنچا
نہ جانے راہ میں کیا اس پہ حادثہ گزرا
کہ عمر بھر نہ نظر سے زبان تک پہنچا
یہ کم نصیب بھٹکتا ہوا اندھیروں میں
کبھی یقین کبھی پھر گمان تک پہنچا
وہ جس میں حد نظر تک چراغ جلتے تھے
وہ راستہ ہی فقط درمیان تک پہنچا
غزل
ٹٹولتا ہوا کچھ جسم و جان تک پہنچا
عزیز بانو داراب وفا