ذرا مشکل سے سمجھیں گے ہمارے ترجماں ہم کو
ابھی دہرا رہی ہے خود ہماری داستاں ہم کو
کسی کو کیا خبر پتھر کے پیروں پر کھڑے ہیں ہم
صداؤں پر صدائیں دے رہے ہیں کارواں ہم کو
ہم ایسے سورما ہیں لڑ کے جب حالات سے پلٹے
تو بڑھ کے زندگی نے پیش کیں بیساکھیاں ہم کو
سنبھالا ہوش جب ہم نے تو کچھ مخلص عزیزوں نے
کئی چہرے دیئے اور ایک پتھر کی زباں ہم کو
اٹھا ہے شور خود اپنے ہی اندر سے مگر اکثر
دہل کے بند کر لینا پڑی ہیں کھڑکیاں ہم کو
ہم اپنے جسم میں بکھرے ہوئے ہیں ریت کی صورت
سمیٹیں گی کہاں تک زندگی کی مٹھیاں ہم کو
بچھڑ کے بھیڑ میں خود سے حواسوں کا وہ عالم تھا
کہ منہ کھولے ہوئے تکتی رہیں پرچھائیاں ہم کو
غزل
ذرا مشکل سے سمجھیں گے ہمارے ترجماں ہم کو
عزیز بانو داراب وفا