نکلنا خود سے ممکن ہے نہ ممکن واپسی میری
مجھے گھیرے ہوئے ہے ہر طرف سے بے رخی میری
بجھا کے رکھ گیا ہے کون مجھ کو طاق نسیاں پر
مجھے اندر سے پھونکے دے رہی ہے روشنی میری
میں خوابوں کے محل کی چھت سے گر کے خود کشی کر لوں
حقیقت سے اگر ممکن نہیں ہے دوستی میری
میں اپنے جسم کے مردہ عجائب گھر کی زینت ہوں
مجھے دیمک کی صورت چاٹتی ہے زندگی میری
غزل
نکلنا خود سے ممکن ہے نہ ممکن واپسی میری
عزیز بانو داراب وفا