EN हिंदी
پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا | شیح شیری
paDa hai zindagi ke is safar se sabiqa apna

غزل

پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا

عزیز بانو داراب وفا

;

پڑا ہے زندگی کے اس سفر سے سابقہ اپنا
جہاں چلتا ہے اپنے ساتھ خالی راستہ اپنا

کسی دریا کی صورت بہہ رہی ہوں اپنے اندر میں
مرا ساحل بڑھاتا جا رہا ہے فاصلہ اپنا

لٹا کے اپنا چہرہ تک رہی ہوں اپنا منہ جیسے
کوئی پاگل الٹ کے دیکھتا ہو آئینہ اپنا

یہ بستی لوگ کہتے ہیں مرے خوابوں کی بستی ہے
گنوا بیٹھی ہوں میں بد قسمتی سے حافظہ اپنا

گئے موسم میں میں نے کیوں نہ کاٹی فصل خوابوں کی
میں اب جاگی ہوں جب پھل کھو چکے ہیں ذائقہ اپنا

فسانہ در فسانہ پھر رہی ہے زندگی جب سے
کسی نے لکھ دیا ہے طاق نسیاں پر پتہ اپنا