مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا
وہ میرے تیر سے مجھ کو شکار کر لے گا
مجھے گماں بھی نہیں تھا کہ ڈوبتا ہوا دل
محیط جسم کو اک روز پار کر لے گا
میں اس کی راہ چلوں بھی تو فائدہ کیا ہے
وہ کوئی اور روش اختیار کر لے گا
فصیل شہر میں رکنے کی ہی نہیں یہ خبر
جو کام ہم سے نہ ہوگا غبار کر لے گا
وہ گل بدن کبھی نکلا جو سیر صحرا کو
تو اپنے ساتھ ہوائے بہار کر لے گا
جہاں پہ بات فقط نقد جاں سے بنتی ہو
وہ خوش کلام وہاں بھی ادھار کر لے گا
ہم ایسے لوگ بہت خوش گمان ہوتے ہیں
یہ دل ضرور ترا اعتبار کر لے گا
کھلے گا اس پہ ہی انجمؔ خلیق باب قبول
جو اپنا حق طلب استوار کر لے گا
غزل
مرے جنوں کو ہوس میں شمار کر لے گا
انجم خلیق