چاہے تو شوق سے مجھے وحشت دل شکار کر
اپنوں سے کٹ چکا ہوں میں اپنی انا ابھار کر
جن کو کہا نہ جا سکا جن کو سنا نہیں گیا
وہ بھی ہیں کچھ حکایتیں ان کو بھی تو شمار کر
خود کو اذیتیں نہ دے مجھ کو اذیتیں نہ دے
خود پہ بھی اختیار رکھ مجھ پہ بھی اعتبار کر
اس کے یقین حسن کا حسن یقیں تو دیکھیے
آئینہ دیکھتا ہے وہ اپنی نظر اتار کر
راہیں رفیق راہ کے شوق کا امتحان ہیں
جس میں سفر طویل ہو رستہ وہ اختیار کر
تیری زمیں نصیب نے تیرے ہنر کو سونپ دی
خواہ چمن بنا اسے خواہ تو ریگزار کر
انجمؔ ابھی ہیں راہ میں شب کی کڑی مسافتیں
مہر فلک پر رہ گیا دن کا سفر گزار کر
غزل
چاہے تو شوق سے مجھے وحشت دل شکار کر
انجم خلیق