بڑے سکون سے ڈوبے تھے ڈوبنے والے
جو ساحلوں پہ کھڑے تھے بہت پکارے بھی
امجد اسلام امجد
ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی
مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے
امجد اسلام امجد
جس طرف تو ہے ادھر ہوں گی سبھی کی نظریں
عید کے چاند کا دیدار بہانہ ہی سہی
امجد اسلام امجد
کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
امجد اسلام امجد
سائے ڈھلنے چراغ جلنے لگے
لوگ اپنے گھروں کو چلنے لگے
امجد اسلام امجد
سوال یہ ہے کہ آپس میں ہم ملیں کیسے
ہمیشہ ساتھ تو چلتے ہیں دو کنارے بھی
امجد اسلام امجد
سنا ہے کانوں کے کچے ہو تم بہت سو ہم
تمہارے شہر میں سب سے بنا کے رکھتے ہیں
امجد اسلام امجد
اس کے لہجے میں برف تھی لیکن
چھو کے دیکھا تو ہاتھ جلنے لگے
امجد اسلام امجد
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
امجد اسلام امجد