آم کے پیڑوں کے سارے پھل سنہرے ہو گئے
اس برس بھی راستہ کیوں رو رہا تھا دیکھتے
عنبر بہرائچی
ہر پھول پہ اس شخص کو پتھر تھے چلانے
اشکوں سے ہر اک برگ کو بھرنا تھا ہمیں بھی
عنبر بہرائچی
ہر اک ندی سے کڑی پیاس لے کے وہ گزرا
یہ اور بات کہ وہ خود بھی ایک دریا تھا
عنبر بہرائچی
ہم پی بھی گئے اور سلامت بھی ہیں عنبرؔ
پانی کی ہر اک بوند میں ہیرے کی کنی تھی
عنبر بہرائچی
گئے تھے ہم بھی بحر کی تہوں میں جھومتے ہوئے
ہر ایک سیپ کے لبوں میں صرف ریگزار تھا
عنبر بہرائچی
ایک سناٹا بچھا ہے اس جہاں میں ہر طرف
آسماں در آسماں در آسماں کیوں رت جگے ہیں
عنبر بہرائچی
ایک ساحر کبھی گزرا تھا ادھر سے عنبرؔ
جائے حیرت کہ سبھی اس کے اثر میں ہیں ابھی
عنبر بہرائچی
چہروں پہ زر پوش اندھیرے پھیلے ہیں
اب جینے کے ڈھنگ بڑے ہی مہنگے ہیں
عنبر بہرائچی
باہر سارے میداں جیت چکا تھا وہ
گھر لوٹا تو پل بھر میں ہی ٹوٹا تھا
عنبر بہرائچی